1726662509750 ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی غزوہ میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دشمن کو زیر کرلیا تو اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تھوک دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ دشمن نے حیرت سے پوچھا کہ آپ نے مجھے قتل کیوں نہیں کیا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "اب چونکہ میرا غصہ بھی شامل ہوگیا تھا، اس لیے اگر میں تمہیں قتل کرتا تو یہ عمل صرف اللہ کے لیے نہ ہوتا بلکہ اس میں میری ذاتی خواہش بھی شامل ہوتی۔" یہ واقعہ مشہور ’’مثنوی شریف‘‘ میں بھی ذکر ہوا ہے، مگر معتبر اسلامی روایات میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس لیے اس کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ مولانا رومی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ’’مثنوی شریف‘‘ ایک انتہائی اہم، عظیم اور اثر انگیز کتاب ہے، جسے بزرگانِ دین نے بہتقدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔لیکن اس واقعے کو اگر فرضی حکایت بھی تسلیم کیا جائے تو بھی اس واقعے سے حاصل ہونے والا جو سبق ہے وہ بہت قیمتی ہے اور قران و حدیث کے عین موافق وہ یہ ہے کہ جس سے بھی محبت ہو وہ اللہ کے لیے ہو اور جس سے بھی بغض ہو وہ اللہ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہودی سے لڑ رہے تھے تو ان کا لڑنا بھی اللہ کے لیے تھا اس میں نفس کا کوئی دخل نہیں تھا اور جب اس سے لڑنا بند کیا تو وہ بھی اللہ ہی کے لیے تھا کہ نفس کا کوئی دخل اس میں شامل نہ ہوجائےاللہ ہی کے لیے کسی سے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے بغض رکھنا یہ بہت بڑی عبادت ہیں بلکہ احادیث میں اس کو تکمیل ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر دشمن کے تھوکنے کا واقعہ 1726662509750


ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی غزوہ میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دشمن کو زیر کرلیا تو اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تھوک دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ دشمن نے حیرت سے پوچھا کہ آپ نے مجھے قتل کیوں نہیں کیا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: “اب چونکہ میرا غصہ بھی شامل ہوگیا تھا، اس لیے اگر میں تمہیں قتل کرتا تو یہ عمل صرف اللہ کے لیے نہ ہوتا بلکہ اس میں میری ذاتی خواہش بھی شامل ہوتی۔” یہ واقعہ مشہور ’’مثنوی شریف‘‘ میں بھی ذکر ہوا ہے، مگر معتبر اسلامی روایات میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس لیے اس کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔
مولانا رومی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ’’مثنوی شریف‘‘ ایک انتہائی اہم، عظیم اور اثر انگیز کتاب ہے، جسے بزرگانِ دین نے بہت
قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
لیکن اس واقعے کو اگر فرضی حکایت بھی تسلیم کیا جائے تو بھی اس واقعے سے حاصل ہونے والا جو سبق ہے وہ بہت قیمتی ہے اور قران و حدیث کے عین موافق وہ یہ ہے کہ جس سے بھی محبت ہو وہ اللہ کے لیے ہو اور جس سے بھی بغض ہو وہ اللہ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہودی سے لڑ رہے تھے تو ان کا لڑنا بھی اللہ کے لیے تھا اس میں نفس کا کوئی دخل نہیں تھا اور جب اس سے لڑنا بند کیا تو وہ بھی اللہ ہی کے لیے تھا کہ نفس کا کوئی دخل اس میں شامل نہ ہو
جائے
اللہ ہی کے لیے کسی سے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے بغض رکھنا یہ بہت بڑی عبادت ہیں بلکہ احادیث میں اس کو تکمیل ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے

Mufti Zubair Qasmi
تحریر: مفتی زبیر قاسمی
دارالعلوم دیوبند کے فاضل، اسلامی اسکالر اور IslamicQuiz.online کے بانی
📚 500+ مضامین   |   🎓 12 سال تجربہ   |   🏆 5 علمی ایوارڈز

zmshaikh33@gmail.com