1726735113419 عید میلاد النبی: حقیقت اور بدعت جشن میلادالنبیﷺحقیقت کےآئینےمیں 1726735113419

عید میلاد النبی: حقیقت اور بدعت

اسلام ایک مکمل دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی، حضرت محمد ﷺ کے ذریعے انسانیت کے لیے نازل کیا۔ یہ دین قیامت تک کے لیے مکمل ہے اور اس کے بعد کسی نئی شریعت یا قانون کی ضرورت نہیں۔ لیکن تاریخ میں کچھ افراد نے اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے دین میں بدعتیں داخل کر دیں، جن کا مقصد دنیوی مفادات کا حصول اور عوام کو گمراہ کرنا تھا۔ ان بدعتوں میں سے ایک “عید میلاد النبی” کا جشن منانا بھی شامل ہے۔

عید میلاد النبی کی ابتدا

عید میلاد النبی ﷺ منانے کا کوئی ثبوت نہ تو رسول اللہ ﷺ کے دور میں ملتا ہے اور نہ ہی صحابہ کرام کے زمانے میں۔ یہ روایت اسلام کے ابتدائی چھ صدیوں میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔ دراصل، ساتویں صدی ہجری میں پہلی بار “اربل” کے ظالم بادشاہ مظفر الدین نے اس رسم کا آغاز کیا۔ اس نے عیسائیوں کی نقل کرتے ہوئے “محفل میلاد” منانا شروع کیا، لیکن اس وقت اس کا نام “عید میلاد النبی” نہیں تھا، بلکہ یہ محفل تک ہی محدود تھی۔

محفل میلاد کا فروغ

مظفر الدین نے اس رسم کے جواز کے لیے “ابو الخطاب عمرو بن وحیہ” نامی ایک شخص سے دلائل جمع کروائے، جس کے بارے میں محدثین نے کہا کہ وہ دینی معاملات میں سخت لاپرواہ اور بے پرواہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ ائمہ کے بارے میں گستاخی بھی کیا کرتا تھا۔ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ شخص دین کے معاملے میں ناقابل اعتماد تھا۔ چنانچہ اس شخص نے محفل میلاد کو فروغ دیا، لیکن اس نے بھی عید میلاد النبی کا نام دینے کی جرأت نہیں کی، کیونکہ اسے علم تھا کہ اسلام میں عید کے لیے صرف دو دن مقرر ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔

کیا صحابہ کرام نے عید میلاد منایا؟

یہ بات قابل غور ہے کہ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے بھی رسول اللہ ﷺ کی ولادت کو عید کے طور پر نہیں منایا۔ اگر عید میلاد النبی ﷺ منانا شریعت کا حصہ ہوتا، تو صحابہ کرام، جو سب سے زیادہ آپ ﷺ سے محبت کرتے تھے، یقیناً اس دن کو مناتے۔ لیکن تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں ہے۔

میلاد کے لیے 12 ربیع الاول کا انتخاب

رضاخانی جماعت کے لوگ بارہ ربیع الاول کو “جشن عید میلاد النبی” کے طور پر مناتے ہیں، حالانکہ اس دن کو منانے کے پیچھے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ بارہ ربیع الاول کو رسول اللہ ﷺ کا وصال بھی ہوا تھا، اور یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کی وفات پر شیطان، یہودی، عیسائی اور کفار خوشیاں مناتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اس دن خوشیاں مناتے تھے، تو کیا ہمیں بھی ان کی طرح یہ دن منانا چاہیے؟ کیا ہم یہ جشن آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں مناتے ہیں یا وفات کی؟

تاریخ ولادت پر اختلاف اور وفات پر اتفاق

یہ بات بھی اہم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ ﷺ 8 یا 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، جبکہ کچھ روایات میں 12 ربیع الاول کا ذکر ہے۔ لیکن آپ ﷺ کی وفات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ 12 ربیع الاول کا دن تھا۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ جس دن آپ ﷺ کا وصال ہوا، اس دن خوشیاں منانا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی بھی اپنے عزیز کی وفات کے دن خوشی مناتا ہے؟ ہرگز نہیں! تو پھر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دن خوشیاں منانا بھی شریعت کے مطابق نہیں ہو سکتا۔

عید میلاد اور جشن کا شرعی حکم

اسلامی شریعت میں عید ایک مخصوص دینی اصطلاح ہے، جسے خود ساختہ طور پر کسی اور موقع پر منانا جائز نہیں۔ عید کے دن کو اللہ تعالیٰ نے مخصوص خوشی کے دن کے طور پر مقرر کیا ہے، جیسے عید الفطر اور عید الاضحی۔ اگر ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہوتا، تو رسول اللہ ﷺ خود اس دن کو عید قرار دیتے۔ لیکن آپ ﷺ نے اپنے یوم ولادت پر روزہ رکھا، نہ کہ جشن منایا۔

صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور جب صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ میرا یوم ولادت ہے، اسی لیے میں اس دن روزہ رکھتا ہوں”۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی ولادت کو یاد کرنا چاہتے ہیں تو بہترین عمل روزہ رکھنا ہے، نہ کہ جلوس نکالنا یا جشن منانا۔

بدعت کی پیروی اور دین کی مخالفت

آج کل کچھ لوگ، جنہیں دین کی صحیح سمجھ نہیں، عید میلاد النبی منانے کو ایک اہم دینی عمل سمجھتے ہیں اور جو لوگ اس کے خلاف بات کرتے ہیں، انہیں دشمنانِ رسول کہہ کر الزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں وہ خود بدعتوں کی پیروی کرتے ہیں، جو دین میں شامل نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے”۔

صحیح عمل کیا ہے؟

اگر ہم واقعی رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور ان کی سنت کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں بدعتوں سے بچنا چاہیے اور دین کی اصل تعلیمات کو اپنانا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جس دن اپنی ولادت کی یاد منانے کا طریقہ بتایا، وہ روزہ رکھنا اور زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنا ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے اور دین میں نئی چیزیں شامل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

عید میلاد کا رد کیسے کریں؟

جو لوگ عید میلاد مناتے ہیں اور اسے شریعت کا حصہ سمجھتے ہیں، ان سے شرعی دلائل طلب کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ شریعت کا معاملہ عقل سے نہیں، نقل سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص عید میلاد کو دینی عبادت سمجھ کر مناتا ہے تو اسے شریعت کے مطابق دلیل دینی ہوگی، لیکن ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص اسے عیش و عشرت کے لیے مناتا ہے تو اسے شریعت کے ساتھ جوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

خلاصہ

عید میلاد النبی ایک ایسی بدعت ہے جس کا آغاز ساتویں صدی میں عیسائیوں کی نقل کرتے ہوئے کیا گیا۔ اسلامی شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے یوم ولادت پر روزہ رکھنے کی تعلیم دی ہے، نہ کہ جشن منانے کی۔ ہمیں چاہیے کہ دین کی اصل تعلیمات کو اپنائیں اور بدعتوں سے بچیں، تاکہ ہم اللہ کی رضا حاصل کر سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں بدعتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

Mufti Zubair Qasmi
تحریر: مفتی زبیر قاسمی
دارالعلوم دیوبند کے فاضل، اسلامی اسکالر اور IslamicQuiz.online کے بانی
📚 500+ مضامین   |   🎓 12 سال تجربہ   |   🏆 5 علمی ایوارڈز

zmshaikh33@gmail.com