اصحاب کہف کا واقعہ منظوم

1730023979374 اصحاب کہف کا واقعہ منظوم اصحاب کہف کا واقعہ منظوم مفتی زبیر قاسمی 1730023979374

پڑکے مال وزر کے پیچھے دین سے بیزار تھے
زندگی کے فیصلوں میں ہم ہی خود مختار تھے

ہمکو لگتا تھا کہ دنیا کا کوئی خالق نہیں
بن گیا سب کچھ ڂودہی ہم اس پہ با اصرار تھے

کس نے دیکھا ہے کہ زندہ ہونا ہے مرنے کے بعد
عقل کو رب مان کر ہم اسکے دعوےدارتھے

ایک دفعہ کانوں میں یوں آئی صدا قرآں کی
نوجواں کچھ تین سو نو سال تک درۼار تھے

محو حیرت ہوگیا میں اور جھٹکا سا لگا
سوچ نہ سکتا تھا میں اس درجہ پر اسرار تھے

جنگ تھی انکی مسلسل بادشاہ وقت سے
بادشہ مشرک یہ وحدت کے علمبردار تھے

وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کا ڂالق ایک ہے
اور انکے گرد سارے مشرک و کفار تھے

قوم یہ کہتی تھی ہے ڂالق ہمارے بے شمار
انکی باتیں بے سند تھی اور ۼلط افکار تھے

عقل میں آتی نہیں یہ بات کہ ڂالق ہو دو
اور وہ توحید سے بے انتہا بیزار تھے

بادشہ نے چاہا دے انکو سزا توحید کی
وہ بھی واقف سازشوں سے تھے بہت ہشیار تھے

مانگتے تھے وہ ڂدا سے کر ڂدایا رحمتیں
ان پہ مولی کی طرف سے جا بجا انوار تھے

رب کی چاہت تھی کہ وہ یکتا ہوئے زیر شجر
کیسے ایماں کو بچائے انکے یہ افکار تھے

ڈرتے ڈرتے ایکدوجے سے تعارف ہو گیا
ڈر رہےتھے کھل نہ جائے انکے جو اسرار تھے

بعد ۼوروفکرانکے مشورے میں طئے ہوا
چھوڑ کر سب کچھ جلاوطنی کو وہ تیار تھے

ایک قدم توحید سے ہٹنا گوارا نہ کیا
کیسے با ہمت جواں تھے کسقدر ڂوددار تھے

کچھ مسافت بعد تھی انکو ٹھکانے کی تلاش
ایک جگہ پہنچے جہاں پر کوہ میں کچھ ۼار تھے

سڂتیاں کچھ تھی سفر میں اور تھکن سے چور تھے
غار میں وہ سو گئے کہ نیندکے آثارتھے
رب کی مرضی یہ ہوئی سوتے رہے صدیوں تلک
بعد صدیوں کے اٹھے تو محو استفسار تھے

رب ہی جانے سوئے کامل یوم ہم یا نصف دن
ہم تو محو ڂواب تھے اور بے ڂبر کردار تھے

بھوکے تھے سوچاکہ کچھ منگوائے ساتھی سے کہا
چھپ کے رہنا کیونکہ دشمن بر سر بازار تھے

رجم کردیگے تمہیں یا دین سے کردینگے دور
یاد ہے اعداء ہمارے کتنے بد کردار تھے؟

جیب میں سکہ تھاانکے تین سو سالہ قدیم
گزری تھی سکے پہ صدیاں گرد کے آثار تھے
جب ملا سکہ تو تاجر نے یہ برجستہ کہا
مل گیا تمکو خزانہ جبکہ وہ نادار تھے
بادشاہ وقت تک پہنچا یہ سارا ماجرا
کچھ ہی وقفے بعد وہ سب حاضردربار تھے

اور پھر دربار میں ان پر کھلا یہ نوجواں
تین صدیوں قبل سوئے تھے جو اب بیدار تھے

بادشاہ وقت بھی قائل تھا یہ توحید کا
پر رعایا میں تھے کچھ جو فاسق و فجار تھے

اسکے قائل تھے کہ جینا ہے نہیں مرنے کے بعد
فلسفی تھے اور وہ شیطاں کے پیروکار تھے

بادشاہ بے چین تھا کیسے کرے انکا علاج
دین سے یہ دور تھے اور عقل کے بیمار تھے

خوش ہوا بھیجا ہے انکو رب نے عبرت کیلئے
ہوگئی اسکی دعا مقبول یہ آثار تھے

چاہتا تھا وہ کہ گمراہی سے سب محفوظ ہو
اور اسمیں کہف والے اسکے سچے یار تھے

رب کی چاہت سے ہوا جو بھی ہوا جیسا ہوا
آیت مولی تھے یہ صلحاء تھے اور ابرار تھے

رب نے کی تعریف انکی اور قرآں میں کہا
وہ ہماری تھے نشانی اور عجب شاہکار تھے

رب نے انکا ذکر زندہ کردیا محشر تلک
کتنے مخلص تھے یہ بندے کتنے تابعدار تھے

ایک کتے کا بھی آیا تذکرہ قرآن میں
اس پہ بھی رحمت خدا کی تھی بہت انوار تھے

تھا تو اک کتا ہی پر بہتوں سے آگے بڑھ گیا
جو کرشمے تھے بوجہ صحبت ابرار تھے

زندگی اور موت رکھے ہے خدا نے دونظام
زندگی بخشی اسی نے ہم تو بس مردار تھے

رب نے دی تمکو ہدایت ورنہ تم تو اے زبیر
حق سے ۼفلت میں ہی رہتے کتنے کج افکار تھے

ازقلم:-مفتی زبیر قاسمی

مزید ایسے ہی بہترین اشعار اور اصلاحی مضامین کے لیے ہمارے ایپ کو ڈاؤن لوڈ کریں یا ہمارے واٹس ایپ گروپ کو جوائن کریں

Mufti Zubair Qasmi
تحریر: مفتی زبیر قاسمی
دارالعلوم دیوبند کے فاضل، اسلامی اسکالر اور IslamicQuiz.online کے بانی
📚 500+ مضامین   |   🎓 12 سال تجربہ   |   🏆 5 علمی ایوارڈز

zmshaikh33@gmail.com